رابطہ لائبریری
برکات نبوتﷺسے کیا مراد ہے؟
برکات نبوتﷺ
ارشاد باری تعالیٰ ہے:۔
لقد من الله على المؤمنين إذ بعث فيهم رسولا من أنفسهم يتلو عليهم آياته ويزكيهم ويعلمهم الكتاب والحكمة وإن كانوا من قبل لفي ضلال مبين
جو علوم انبیاء علیہ الصلوۃ و السلام تقسیم فرماتے ہیں ،اس میں دو چیزیں ہو تی ہیں ،یا دوطرح کا فیض نصیب ہوتا ہے،ایک حصہ کو تعلیمات نبوت کہتےہیں، اور دوسرا حصہ برکات نبوت کہلاتا ہے۔
تعلیمات نبوت:۔تعلیمات نبوت ارشادات ظاہری ۔اقوال و افعال و رسولﷺ کا مرقع ہے،قرآن وحدیث و فقہ سب اسی قبیل سے ہیں۔تعلیمات نبوتﷺ کا یہ پہلو حروف والفاظ کی شکل میں قلم بند ہوا، اور سیکھا سکھایا جاتا ہے۔
برکات نبوت:۔انبیاء علیہ الصلوۃ والسلام سے جب قلبی تعلق بنتا ہے تو قلب اطہر پیغمبرعلیہ الصلوۃ والسلام سے فیض پانے والے کے قلب پر وہ کفیت آ جاتی ہے جو دیکھی نہیں جا سکتی ،بیان نہیں کی جا سکتی ،جس کے لئے کوئی الفاظ نہیں ملتے جو صرف محسوس کی جا سکتی ہے ،اسکو برکات نبوت کہتے ہیں۔دین مبین کا یہ شعبہ تصوف وسلوک ،احسان ،اسرار شریعت،طریقت وغیرہ کے الفاط سے بھی گردانا گیا ہے۔اور ہمارے عرف عام میں اسکو پیری مریدی بھی کہا جاتا ہے۔
"يتلو عليهمآيا تہ "دعوت الی اللہ ہے ،"یزکیھم "برکات نبوت ہے، "و یعلمھم الکتاب و لحکمۃ" تعلیمات نبوت ہے۔اب یہ قرآن نے علیحدہ سے یزکیھم کا ذکر کیا ہے ۔یعنی آپﷺ تزکیہ فرماتے تھے،یہ تزکیہ کیا ہے۔یہی ہمارا موضوع ہے۔اور اس شعبے کو آج تصوف و احسان یا طریقت وغیرہ کہا جاتا ہے۔
حصول تزکیہ:۔تزکیہ کیا ہے ؟ ایک قلبی اور روحانی کفیت کا نام ہے،جس کے طفیل دل میں خلوص اور اطاعت الٰہی کی محبت پیدا ہو جاتی ہے اور گناہ اور معصیت سے نفرت ہونے لگتی ہے۔اسکا ثبوت صحابہ کرام رضوان اللہ علہیم اجمعین کی مقدس زندگیاں ہیں کہ آپﷺ کی بعثت کے وقت دنیا کی اخلاقی حالت عموماً اور اہل عرب کی خصوصاً تباہی کےآخری کنارے پر پہنچ چکی تھی کہ آپ ﷺ کی بعثت نے انسانیت کی حیات نو بخشی اور ان ہی لوگوں کو وہ اخلاقی عظمت اور خلو ص للہیت عطا فرمائی کہ تاریخ انسانی اسکی مثال پیش نہیں کر سکتی۔
آپ ﷺ کی تعلیمات ،ارشادات اور اسکے ساتھ فیض صحبت تزکیہ کی اصل ہے صرف تعلیمات تو کا فر بھی سنتا اور جانتا ہے مگر ایمان نہ ہونے کی وجہ سے فیض صحبت سے محروم ہو کر تزکیہ سے محروم رہتا ہے اور مومن ایمان لاکر ان کفیات کو حاصل کرتا ہے ،جو آپ ﷺ کی صحبت میں بٹتی ہیں چنا نچہ ایک نگاہ پانے والا صحابیت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہوا اور یہ نعمت عظمیٰ بٹتی رہی ۔
صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کی صحبت میں آنے والے تابعین کہلائے اور ان سے تبع تابعین مستفید ہوئے پھر اہل اللہ نے اسی نعمت کو ان مقدس سینوں سے حاصل کیا اور خلق خدا کے دلوں کو روشن کرتے رہے اور کرتے رہے گے،انشاء اللہ،کہ اسی کی برکت سے کتاب وحکمت یا کتاب وسنت کی تعلیم حاصل کی جا سکتی ہےیہ تزکیہ یا فیض صحبت ہی اصول تعلیم کی اساس ہے ،کتاب وحکمت کی وہ تعلیم جو انسان کے لئے راہ عمل آسان کر دے جو اسکی عملی زندگی بن جائے ورنہ پھرمحض حروف کی شناخت رہ جائے گی،اسے تعلیم کہنا درست نہ ہو گا۔یہ بھی وضاحت فرما دی کہ کتاب کے ساتھ مفہوم کتاب یا حکمت بھی ہےیعنی حدیث مبارک اور کتاب اللہ کی وہ شرح جوآپﷺنےفرمائی۔ورنہ قبل ازیں تولوگ ایسی گمراہی میںمبتلاء تھے،جسے وہ خود بھی جانتے تھے،یعنی اپنے گمراہ ہونے کا خود انھیں بھی علم تھا۔اور غالباً آج کے دور کی مصیببت بھی یہی ہے کہ کفیات باطنی دنیا میں بہت کم نصیب ہوتی ہیں ۔ایسے لوگ جن کے نہ صرف دل روشن ہوں بلکہ دوسرے دلوں کو روشن کرنے کی ہمت بھی رکھتے ہوں ،دنیا میں نطر نہیں آتے ہیں۔اورجب یہ نعمت نصیب نہیں ہوتی ،تو قوت عمل نصیب نہیں ہوتی۔لوگ کتاب اللہ پرھتے بھی ہیں ۔پڑھاتے بھی ہیں ،مگر عمل بہت کم نصیب ہوتا ہے ،اللہ کریم دلوں کو روشنی نصیب فرمائیں،آمین۔اور اسکے لئے ضروری ہے کہ ایسے لوگ تلاش کیا جائے جو ایک روشن دل رکھتے ہوں ۔آور آپ ﷺ کی عطا کردہ کفیات کے نہ صرف امین ہوں بلکہ انھیں تقسیم بھی کر سکے اور دوسروں کے دلوں میںبھی وہ روشنی منتقل کر سکے جس کے وہ امین ہوں۔
چنیں مردے کہ یابی خاک او شو
اسیر حلقہ فتر اک او شو
ایسے ہی مردوں کی غلامی حیات آفریں ہو اکرتی ہے اور حقیقی علم ست آشنائی نصیب کرتی ہیں ،یہی ترتیب قرآنی سے بھی مترشخ ہو تا ہے کہ تلاوت آیات، پھر تزکیہ اور اسکے بعد تعلیم کتاب وحکمت ۔(تفسیراسرار التنزیل 421)
تصوف واحسان علمائے اہل ھدیث کی نظرمیں
ahan posh col imam,آہن پوش کرنل امام،جنگ افغان کا اصل ہیرو
دلائل السلوک : حضرت مولانا اللہ یارخانؒ